يَصِفُ المؤمنَ: لطيفُ الحَرَكاتِ، حُلْوُ المُشاهَدةِ ... يَطلُبُ مِن الامورِ أعلاها، و مِن الأخلاقِ أسْناها ... لا يَحيفُ على مَن يُبغِضُ، و لا يأثَمُ فيمَن يُحِبُّ ... قليلُ المؤونةِ، كثير المَعونةِ ... يُحسِنُ في عملِهِ كأنّهُ ناظرٌ إلَيهِ، غَضُّ الطَّرْفِ، سَخِيُّ الكَفِّ، لا يَرُدُّ سائلًا ... يَزِنُ كلامَهُ، و يُخْرِسُ لسانَهُ ... لا يَقبَلُ الباطلَ مِن صديقِهِ، و لا يَرُدُّ الحقَّ على عدوِّهِ، و لا يَتعلّمُ إلّا لِيَعْلمَ، و لا يَعلمُ إلّا لِيَعْملَ ... إن سلَكَ مَع أهلِ الدُّنيا كانَ أكيَسَهُم، و إنْ سَلكَ مَع أهلِ الآخرةِ كانَ أورَعَهُم.
پیغمبراکرم (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم):
مومن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا؛اس کی حرکات و کردار ملائم و مہربان اور اس کی ملاقات میٹھی ہوتی ہے ،ہر چیز میں سے اعلیٰ کا انتخاب کرتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کا حامل ہوتا ہے ،اپنے دشمن پہ ستم نہیں کرتا اور جس سے محبت کرتا ہے اس کی وجہ سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ،کم خرچ اور بہت زیادہ مددگار ہوتا ہے ،کام کو اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے ،جیسے اسے دیکھ رہا ہو ،نظریں نیچی رکھتا ہے،سخی ہوتا ہے کسی سائل کو خالی نہیں پلٹاتا ،اپنے کلام کو تولتا اور زبان بند رکھتا ہے ،باطل کو اپنے دوست سے بھی قبول نہیں کرتا اور اپنے دشمن کی حق بات کو بھی نہیں ٹھکراتا،جاننے کے لئے علم حاصل کرتا ہے اور عمل کے لئے علم حاصل کرتا ہے، اگر اہل دنیا کے ساتھ چلے تو ان سب سے زیرک (ذی شعور) ہوتا ہے اور اگر اہل آخرت کے ساتھ چلے تو ان سب سے زیادہ پرہیزگار ہوتاہے ۔
ماخذ:
التمحیص
نمبر75
بحار الانوار
جلد67
صفحہ71
ID: 2073